لاہور(قاسم علی سے) صاف پانی کی کمی کے شکار پاکستان میں چھوٹے پیمانے پر فلٹریشن پلانٹس کا کاروبار تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے جس کی وجہ محکمہ خوراک میں چیک اینڈ بیلنس کی کمی ہے۔
’’ یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرے، لیکن تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک آبادی کا بڑا حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات سے محروم ہے‘‘۔ ٹاؤن شپ لاہور کے رہائشی شاہد بلال نے کہا۔
شاہد گزشتہ 6 ماہ سے صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہے۔ وہ اسہال کا شکار ہے جو اسے لاحق پیٹ کے امراض میں سرفہرست ہے اور اب طبی ماہرین اس کی نگہداشت کر رہے ہیں۔ نیوز لینز پاکستان کے ساتھ انٹرویو میں اس نے کہا کہ علاج معالجے کے دوران تشخیص ہوئی کہ اسے یہ بیماریاں اس آلودہ پانی کو پینے سے ہوئیں جو وہ گھر میں استعمال کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دیگر تمام لوگوں کی طرح میری فیملی بھی گھریلو استعمال کے لیے واسا (واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی لاہور)کا فراہم کردہ پانی ہی استعمال کرتی تھی، لیکن طویل عرصے تک بیماریوں کا شکار رہنے کے باعث ہم یہ پانی استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ اب ہم قریب ہی میں موجود نجی فلٹریشن پلانٹ سے پینے کے لیے پانی خریدتے ہیں۔
شاہد اکیلا ہی حکومت کی کوتاہی اور بدانتظامی کا شکار نہیں ہے۔ ملک بھر میں روزانہ ایسے ان گنت واقعات پیش آ رہے ہیں جن میں شہری آلودہ پانی میں پرورش پانے والی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور پھر نام نہاد صاف پانی خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں لاہور میں پرائیویٹ فلٹریشن پلانٹس کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے جبکہ مختصر عرصے میں ہی یہ پلانٹس شہر بھر میں پھیل چکے ہیں اور ان کے صارفین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان پلانٹس کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نسبت خالص اور صاف پانی انتہائی کم نرخوں پر فراہم کر رہے ہیں۔
یہ پلانٹس پانی کی 19 لٹر کی بوتل کے 60 سے 90 روپے تک وصول کرتے ہیں اور اکثر فری ہوم ڈلیوری کی سہولت بھی دیتے ہیں، جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 19 لٹر کی بوتل کی قیمت 190 روپے ہے۔اگر ہم مشاہدہ کریں تو چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی یہ کمپنیاں بہت اچھا کاروبار کر رہی ہیں جیسا کہ دھرم پورہ کے علاقے میں موجود ایک فلٹر پلانٹ کے مینجر عمیر نے بتایا کہ وہ دن بھر میں 5 ہزار لٹر پانی فروخت کرتے ہیں۔
عمیر نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ ان کا عملہ لاہور کے مضافات میں جلو کے قریب نل سے پانی لیتا ہے اور پھر اسے فلٹرز کے ذریعے صاف کرتا ہے تاکہ کسٹمرز کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی فراہم کیا جا سکے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا فلٹر پلانٹ معیار کے مطابق ہے اور وہ باقاعدگی سے متعلقہ لیبارٹریوں سے کلیئرنس رپورٹ حاصل کرتے رہتے ہیں۔
اگرچہ عمیر تمام قانونی تقاضے پورے کر رہا ہے لیکن بہت سے دیگر مالکان ہیں جو صاف پانی کے نام پر عوام کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ مالکان اخراجات بچانے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ فلٹر تبدیل نہیں کرتے یا ماہانہ بنیادوں پر لیبارٹری ٹیسٹ کی شرط پوری نہیں کرتے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی (پی ایف اے) ایسے پلانٹس کے خلاف کارروائی کرتی ہے لیکن صرف اس وقت جب اسے کوئی شکایت موصول ہوتی ہے۔
سمر گوندل،فوڈ سیفٹی آفیسر پنجاب فوڈ اتھارٹی، ممبر آف سپیشل ٹاسک فورس، نے نیوز لینز پاکستان کو ٹیلیفونک انٹرویو میں بتایا کہ یہ پلانٹس فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2011 کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ لائسنس حاصل کرنے کے بعد یہ پلانٹس کام کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جب کبھی شکایت موصول ہوتی ہے تو بلاتاخیر کارروائی کی جاتی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ ایسے پلانٹس کی تعداد 250 ہے۔ کچھ بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں جبکہ بیشتر صرف ایک دکان پر مشتمل ہیں۔ ہم ہر سال ان میں قابل ذکر تعداد کا اضافہ دیکھتے ہیں  جبکہ بہت سے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ کاروبار بند بھی کر دیتے ہیں۔ ہم جانچ پڑتال کے لیے اچانک چھاپے مارتے ہیں، جرمانے اور وارننگ معمول کی بات ہے۔‘‘ جرمانے کی زیادہ سے زیادہ حد 50 لاکھ روپے ہے اور اتھارٹی پلانٹس میں آرسینک فلٹرز کی موجودگی یقینی بناتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا۔
ڈاکٹر قاسم اسلم جو ماہر معیشت ہیں، کے مطابق صاف پانی پہلے سے ہی ایک قابل فروخت چیز ہے۔ ’’ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے کافی عرصہ قبل پاکستان میں پانی کی بوتل بنانا شروع کی تھی اور اب یہ انفراسٹرکچر کافی مضبوط ہو چکا ہے کیونکہ منتخب ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریٹس پانی کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں چلا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہمارے ملک میں ایک نیا رجحان ہے اور حکومت اس مشکل کو حل کرنے والی سکیموں میں فائدہ دیکھتی ہے جو دراصل اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر اسلم اس سیکٹر میں مزید اضافہ ہوتا دیکھتے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صاف ہوا اور صاف پانی ہر شہری کے آئینی حقوق ہیں اور حکومت فلٹریشن کے لیے صارفین سے پیسے چارج نہیں کر سکتی، اس لیے آلودگی پھیلانے والوں کو یہ رقم ادا کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ماحولیاتی تحفظ کے قانون کے مطابق آلودگی پھیلانے والے کو اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی اور عوام یہ قیمت ادا نہیں کریں گے، لیکن پاکستان میں صورتحال اس سے بالکل الٹ ہے۔ اسلم نے مزید کہا۔
صاف پانی پر قیمت درج کرنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ چیز ان معاشروں میں ممکن ہو سکتی ہے جہاں اس کے لیے رضامندی پائی جاتی ہو اور لوگوں میں قوت خرید بھی ہو؛ ان معاشروں کے استحصال کے لیے ایسا نہیں کیا جا سکتا جہاں قوت خرید ہی نہ پائی جاتی ہو ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 80 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے؛ یہ لوگ اپنی آمدنی کا 80 فیصد حصہ خوراک پر اور باقی 20 فیصد حصہ ادویات پر خرچ کرتے ہیں۔ جب کوئی پانی پر قیمت درج کرتا ہے تو یہ چیز یا تو خوراک اور یا ادویات کے بجٹ میں ایڈجسٹ ہوتی ہے ۔ یہ لوگ مذکورہ بالا طریقوں سے اس ملک کے لوگوں کو منجمد کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے صاف پانی کی دستیابی تیزی سے ایک حقیقی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ لاہور کا تمام پانی آلودہ ہو چکا ہے اور اس میں آرسینک کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مقرر کردہ مقدار سے دوگنا ہے۔ یہ رپورٹ شہر کے مختلف حصوں سے پانی کے چار نمونوں کے لیبارٹری تجزیے پر مشتمل ہے۔پانی کے نمونوں میں آرسینک کی مقدار 20 پوائنٹس سے بھی زیادہ ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا معیار 10 پوائنٹس سے کم ہے۔پانی کے دو نمونوں کے تجزیے سے پتا چلا کہ ان میں موجود انسانی فضلے کی شرح بھی خطرناک حد تک ہے۔
لوگوں کو لاحق صحت کے مسائل کی وجوہات میں آرسینک ایک بنیادی عنصر ہے۔جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وحید عمران کے مطابق آرسینک کی بڑھتی ہوئی مقدار زہر کی طرح اثر کر رہی ہے اور صحت کے متعدد مسائل کی وجہ بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’آرسینک آہستہ آہستہ اثر کرنے والے زہر کی طرح کام کرتی ہے، پٹھوں، ہڈیوں اور جسم کے ٹشوز کو نشانہ بناتی ہے، جبکہ دائمی امراض کا سبب بنتی ہے جیسا کہ پیٹ کی بیماریاں، ٹائیفائیڈ بخار، جگر اور پیٹ کے تمام امراض وغیرہ۔ ان تمام مسائل کی وجہ آلودہ پانی ہے اور تقریباً 20 فیصد مریض صحت کے ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ‘‘۔
انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہ بیماریاں صنعتی علاقوں یا ان قصبوں وغیرہ میں پائی جاتی تھیں جن کی آب و ہوا فیکٹریوں کے ذریعے آلودہ ہو گئی ہو، لیکن احتیاطی تدابیر نہ ہونے سے اب شہری علاقے بھی ان بیماریوں سے متاثر ہو چکے ہیں اور مریضوں کی تعداد میں خطرناک شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
واساآلودہ پانی کے مسائل کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ امتیاز گوندل، ڈپٹی ڈائریکٹر واسا، نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ واسا کا پانی تقسیم کرنے کا نظام اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ پرانی سپلائی لائنز آبی آلودگی کی بڑی وجہ ہیں اور ہم ان لائنز کو تبدیل کر رہے ہیں۔ واسا نے سپلائی لائنز کی اپ گریڈیشن کے لیے رواں برس 300 ملین روپے خرچ کیے جبکہ آئندہ سال مزید 800 ملین روپے خرچ کیے جائیں گے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ واسا پرانے ٹیوب ویلز بھی تبدیل کر رہا ہے اور شہر کے 500 ٹیوب ویلز میں سے 106 جلد ہی تبدیل کر دیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی میں موجود جراثیموں کا خاتمہ کرنے کے لیے کلورینیشن بھی کی جاتی ہے۔
پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ موجودہ وقت میں کافی متحرک ہے لیکن عوام زیادہ بہتری نہیں دیکھتے۔ اقبال ٹاؤن لاہور کے رہائشی احمد عثمان نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ ’’ ایک مقامی فلٹر پلانٹ مین ڈرین کے دائیں جانب نصب ہے، اب ڈرین کے قریب سے حاصل کیا گیا پانی کس طرح صاف ہو سکتا ہے؟ مقامی سطح پر فلٹر کیا گیا پانی بطور بوتل والے پانی کے بیچا جا رہا ہے۔ میں اس پلانٹ سے فلٹر کیے گئے پانی کے بجائے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ پانی کو ترجیح دوں گا‘‘۔
سحر منیر، جو سکول ٹیچر ہیں، کو ان نچلے درجے کے فلٹریشن پلانٹس کی جانب سے فراہم کردہ پانی کے معیار پر شدید تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سارے فلٹریشن پلانٹس فلٹر کیے گئے پانی کو منرل واٹر کہہ کر بیچتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ فلٹرڈ واٹر اور منرل واٹر میں بہت زیادہ فرق ہے۔ فلٹرڈ واٹر صرف فلٹریشن کے عمل سے گزرتا ہے جبکہ منرل واٹر میں تمام ضروری منرلز یعنی معدنیات عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق موجود ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس پانی کو لانے اور لے جانے کے لیے جو بوتلیں استعمال ہوتی ہیں وہ ری سائیکل پلاسٹک سے بنی ہوتی ہیں جو بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان بوتلوں میں کیمیکلز کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرے ہوتے ہیں جو پانی کو آلودہ کر دیتے ہیں اور صحت کے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر فلٹریشن پلانٹس تکنیکی مہارتوں سے محروم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نگرانی کا سخت نظام ہونا چاہیے کیونکہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور ملک بھر میں لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here