پشاور: پولیس حکام کہتے ہیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے پولیس سٹیشنوں میں خواتین کے لیے دوستانہ ماحول کے حامل خصوصی یونٹس کے قیام کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیاہے، یہ ایک ایسا صوبہ ہے جہاں ثقافتی رکاوٹوں کے باعث خواتین کے لیے جرائم کے خلاف شکایات درج کروانا ممکن نہیں ہوپاتا۔

محکمۂ پولیس پشاور میں سٹیشن ہائوس آفیسر ( ایس ایچ او) رضوانہ طفیل کہتی ہیں:’’ خواتین کے لیے دوستانہ ماحول کے حامل پولیس سٹیشنوں کے قیام کا مقصد ہمارے رجعت پسند، مردانہ برتری کے شکار معاشرے میں آسانی کے ساتھ اور محفوظ طریقے سے شکایات کے اندراج کے ذریعے مشکلات کا شکار خواتین کی مدد کرنا ہے۔ ہم صوبے کے تمام پولیس سٹیشنوں میں خواتین کے لیے دوستانہ ماحول کے حامل یونٹ قائم کرکے انہیں ماڈل پولیس سٹیشنوں میں تبدیل کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ماڈل پولیس سٹیشنوں میں خواتین شکایات کنندگان کے لیے خصوصی ڈیسک قائم کئے جائیں گے۔رضوانہ طفیل نے مزید کہا:’’ یہ صوبے میں تھانہ کلچر تبدیل (خواتین کے حق میں) کرنے کے حوالے سے ایسا پہلا اقدام ہوگا۔‘‘

صوبہ بھر میں 256پولیس سٹیشن ہیں جن میں سے30خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہیں۔ محکمۂ پولیس نے ابتدا ء میں 2013ء میں پشاور کے چار پولیس سٹیشنوں میں خواتین کی شکایات کے اندراج کے لیے ڈیسک قائم کیے تھے جن میں گلبہار، فقیرآباد، کینٹ اور یونیورسٹی ٹائون شامل ہیں۔ رضوانہ طفیل کہتی ہیں کہ ماڈل پولیس سٹیشنوں میں خواتین کے لیے دوستانہ ماحول کے حامل یونٹ قائم کرنے کے بعد محکمۂ پولیس اگلے تین برسوں میں اسی طرح کے یونٹ صوبے بھر کے پولیس سٹیشنوں میں قائم کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔

خواتین کے لیے خصوصی ڈیسکوں کے قیام کے علاوہ الگ سے تفتیشی یونٹ بھی قائم کیے جائیں گے جو خواتین کو سازگار ماحول میں قانونی مدد فراہم کریں گے۔ خواتین کے لیے مخصوص یونٹ میں دو کانسٹیبل اور ایک ماہرِ نفسیات شامل ہوگی جو روزانہ صبح آٹھ سے شام چھ بجے تک ذہنی تنائو کا شکار خواتین کی معاونت کرے گی۔

گلبہار پولیس سٹیشن میں خواتین کے ڈیسک کی نگران بسمین زمان کہتی ہیں کہ یہ یونٹ خواتین کی معاونت کے حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے جو مردوں کے زیرانتظام پولیس سٹیشنوں میں جانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ محکمۂ پولیس میں حالیہ اصلاحات جن کے باعث خواتین کے یونٹ تشکیل پائے ہیں، ان خواتین کے لیے امید کی کرن ہیں جو قبل ازیں پولیس سٹیشن نہیں جانا چاہتیں تھیں۔ بسمین زمان نے مزید کہا:’’ خواتین کے لیے دوستانہ ماحول کے حامل پولیس یونٹوں کے قیام کے ساتھ ہی ماڈل پولیس سٹیشنوں میں خواتین شکایت کنندگان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہواہے۔‘‘

گلبہار پولیس سٹیشن کی جانب سے فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ 2004ء میں خواتین نے صرف 72مقدما ت درج کروائے۔

2015ء میں جب خواتین کے لیے دوستانہ ماحول کے حامل یونٹ پہلی بار متعارف کروائے گئے تو شکایات کی تعداد بڑھ کر130ہوگئی۔ 2016ء میں مئی کے بعد سے 90مقدمات درج ہوئے ہیں جن میںسے 31صرف ایک ماہ یعنی ستمبر میں درج ہوئے۔

ان مقدمات کی اکثریت خواتین کے خلاف گھریلو تشدد، ہراساں کئے جانے کے واقعات اور جائیداد کے امور سے متعلق تھی۔

گلبہار پولیس سٹیشن میں خواتین کے لیے مخصوص یونٹ سے منسلک ماہرِ نفسیات انعم سیٹھی کہتی ہیں:’’ جب کوئی خاتون شکایت درج کروانے کے لیے پولیس سٹیشن آتی ہے، تو وہ اکثر اوقات ذہنی دبائو کا شکار ہوتی ہے اور مشکل حالات کا سامنا کررہی ہوتی ہے۔میں ان کے ساتھ ان کے حالات کے بارے میں بات کرکے ان کی مدد کرتی ہوں جو میری ذمہ داری ہے ۔ بعض اوقات خواتین ذہنی تنائو و پریشانی کے باعث اپنے مسائل کے بارے میں بات نہیں کرسکتیں تو اس وقت ہمیں ابلاغ کے متبادل ذرائع استعمال کرنا ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں ہم یہ یقینی بناتے ہیں کہ جب ہم تفتیشی عمل انجام دے رہے ہوں تو وہ پولیس سٹیشن میں محفوظ ہوں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو مردوں کے تحت منتظم کیے جارہے پولیس سٹیشنوں میں سادہ سی شکایت درج کروانا بھی مشکل محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ ’’پویس کے کارروائی کرنے کا روایتی انداز اور مائنڈ سیٹ ‘‘ ہے جس کے باعث شکایت کنندگان کی حوصلہ شکنی اور مقدمات کے اندراج میں تاخیر ہوتی ہے۔

اندرون شہر کی رہائشی شہناز پشوری ایک شخص کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد شکایت کا اندراج کروانے کے لیے جب پہلی بارگلبہار پولیس سٹیشن گئیں تو بہت زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔

وہ کہتی ہیں:’’ میں پولیس سٹیشن میں ایسا ماحول دیکھ کر حیران رہ گئی۔ خاتون کانسٹیبل نے میری درخواست کو انتہائی نرمی سے موصول کیا۔ میں نے سرے سے ہی یہ محسوس نہیں کیا کہ میں پولیس کے درمیان ایک پولیس سٹیشن میں کھڑی ہوں۔‘‘

شاہدہ نائب حسین پشاور میں بیوٹیشن ہیں، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے گزشتہ ماہ ایک کار لی لیکن ابتدائی رقم کی ادائیگی کے بعد ہی فروخت کنندہ نے اسے ایک ساتھ رقم کی ادائیگی کرنے کے لیے دھمکانا شروع کردیا۔

وہ ایک ساتھ رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں، چناں چہ انہوں نے پولیس سٹیشن میں درخواست جمع کروائی۔ شاہدہ نائب حسین کہتی ہیں کہ ان کی شکایت ایک ہفتے میں حل ہوگئی۔

انہوں نے مزید کہا:’’ جب میں پولیس سٹیشن میں تھی تو مجھے ایک بار بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں پولیس کے درمیان کھڑی ہوں بلکہ مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میں اپنے خاندان میں ہوں۔‘‘

شاہدہ نائب حسین کا کہنا تھا:’’ میں نے خواتین کے لیے مخصوص یونٹوں میں دوبار شکایت جمع کروائی ، پولیس اہل کارمہذب انداز سے پیش آئے اور انہوں نے بہت زیادہ مدد کی۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here